میری کہانی میری زبانی – فبیحہ فضل


.

السلام علیکم

میرا نام ہے فبیہا فضل اور آج میں آپ لوگوں کے ساتھ اپنی زندگی کا ایک ایسا ایکسپرینس شیئر کرنے جارہی ہوں جو مجھے لگتا ہے کہ شاید کہیں نہ کہیں شیئر کرنے لائق ہے. میری پیدائش دہلی کی ہے اور میری پرورش  علی گڑھ میں ہوئی. علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں میرے ابا پروفیسر تھے. تو جب ہم لوگوں کی پرورش ہورہی تھی تو  ہم لوگوں کو یہی سکھایا جاتا تھا کہ آپ کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد بہترین پڑھائی اور اس کے بعد بہترین کھانا اور باقی سب چیزیں جو ہے وہ اتنی اہمیت نہیں رکھتی. تو اسی مائنڈ سیٹ کے ساتھ ہم لوگ پلے بڑھے، میں نے وہاں سے پی ایچ ڈی کیا اور اس کے بعد میں اور میرے ہزبینڈ مزید تعلیم کے لئے امریکہ آگئے. امریکہ میں ہم لوگ شکاگو میں رہتے تھے. اور جب ہمارے بیٹے ہلال تقریباً 4 سال کے ہوئے تو ہم لوگوں نے سوچا کہ اب ان کو ویکنڈ اسلامک اسکول لے جایا جائے اور مجھے لگتا ہے شاید وہی میری زندگی کا ایک ٹرننگ پوائنٹ تھا. کیونکہ جب ہم لوگ وہاں ہلال کو لے گئے تو میں نے دیکھا کہ وہاں تو ہر انسان ولینٹیر ہے، سب لوگ اپنا قیمتی وقت جو ہے وہ سینٹر کو دے رہے ہیں اور نہ صرف وقت بلکہ پیسے سے بھی مدد کر رہے ہیں. کونسیپٹ آف ولینٹیرزم میں نے دیکھا اور مجھے بہت ہی متاثر کیا. اور مجھے لگا کہ مجھے بھی کچھ کرنا چاہیے. اب سوال یہ تھا کہ میں کیا کروں کیونکہ میں وہاں زیادہ لوگوں کو جانتی نہیں تھی. تو خیر شروع شروع میں لیڈیز سیکشن کے باہر کھڑی ہوجاتی تھی اور خواتین اپنے جوتے چپل اتار کر اندر چلی جاتی تھیں تو میں انہیں اٹھا کر پروپرلی کبیز میں سیٹ کردیتی تھی. پھر میں نے بک اسٹور میں ہلپ کرنا شروع کیا پھر دھیرے دھیرے وہاں پڑھانا شروع کرا. اور یہ سب کچھ کرنے میں مجھے بہت ہی مزہ آنے لگا اور مجھے بہت اچھا لگنے لگا. اس کے بعد ہم لوگ راچسٹر، نیو یارک موو ہو گئے. اب کیوں کہ ولینٹیر کرنے کا جذبہ میرے اندر جاگ گیا تھا تو اسلامک سینٹر آف راچسٹر، (ICR) میں نے جانا شروع کرا اپنے بچوں کو لے کر. وہاں لوگوں نے مجھ سے کہا کہ ایسا ہے آپ ICR کا بورڈ آف ڈائریکٹر جوائن کریں کیونکہ وہاں خواتین کی بہت کمی ہے. میں نے سوچا کہ ٹھیک ہے ویسے تو میں نے کبھی کچھ ایسا کیا نہیں ہے لیکن چلو دیکھتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے. تو میں نے بورڈ آف ڈائریکٹر جوائن کیا. اب ICR کی یہ خواصیت ہے کہ وہاں پچپن ممالک کے لوگ آتے تھے. تو جب میں بورڈ آف ڈائریکٹر میں آئی تو میری بہت لوگوں سے ملاقات ہوئی اور جو میری دوستی کا دائرہ ابھی تک ہندوستان اور پاکستان کے لوگوں کے لیے محدود تھا وہ اب بہت بڑھ گیا. اب میرے دوست بوسینیا سے تھے، افغانستان سے تھے، صومالیہ سے تھے، ایجیپٹ سے تھے, بنگلہ دیش سے تھے، نائجیریا سے تھے، اور میں ان لوگوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے لگی. میں نے ان کے کلچر کو سمجھا، ان کے قصے کہانیاں سنی، ان کے اسٹروگل سنے اور ایک عجیب و غریب بونڈ بن گیا. تو یہ جو میرا ایکسپرینس ہے یہ میرے دل کے بہت قریب ہے اور جب میں یہ سب کر رہی تھی انہی دنوں راچسٹر میں ایک چیریٹی آرگنائزیشن ہے براکا مسلم چیریٹی( BMC) ان لوگوں نے بھی مجھے انوائٹ کیا کہ میں ان کا بھی بورڈ آف ڈائریکٹر جوائن کروں. میں نے کہا ٹھیک ہے.  (BMC)کا جو مشن ہے وہ ICR سے فرق تھا. براکا میں ہم لوگ ضرورت مند لوگوں کی چاہے وہ کسی بھی مذہب کے ہو کھانے سے کپڑے سے اور کئی چیزوں سے مدد کرتے ہیں. تو ایک قصہ میرے ساتھ ایسا ہوا براکا میں جو مجھے لگتا ہے کہ آپ لوگوں کے ساتھ شیئر کروں. مہینے میں ایک سنڈے براکا میں ہم لوگ نون پریشیبل فوڈ آئٹم ضرورت مند لوگوں کو بانٹتے ہیں. تو ایک سنڈے صبح صبح میں براکا پہنچی اور ہم لوگوں نے سب سیٹ اپ کردیا اور جو نون پریشیبل فوڈ آئٹم لینے آئے تھے ضرورت مند لوگ وہ بھی بیٹھ گئے اور انہوں نے اپنے  اپنے ٹکٹ لے لئے. بانٹنے سے قبل میں نے اپنی دوست سے کہا کہ یار میں نے آج کافی نہیں پی ہے. میں لے کر آتی ہوں. تو جو لوگ وہاں بیٹھے تھے ان میں سے ایک صاحبہ اٹھی اور انہوں نے مجھ سے انگریزی میں کہا کہ میں بھی آپ کے ساتھ آتی ہوں تو میں نے کہا چلیے ٹھیک ہے.  اپنے ذہن میں یہ سوچا کہ ان کے لیے میں کافی خریدوں گی. جب وہاں ہم گئے اور میں نے کافی بنا لی اور پے کرنے کا وقت آیا تو ان صاحبہ نے کہا کہ میں آپ کی کافی کے لیے پے کروں گی. تو مجھے بڑی حیرت ہوئی. میں نے کہا نہیں نہیں پلیز آپ بھی لیں اور میں آپ کے لیے بھی پے کروں گی. تو انہوں نے کہا کہ نہیں. میں اصل میں ہر روز دو اچھے کام کرتی ہوں آپ کی کافی خریدنا میرا آج کا پہلا اچھا کام ہے. آپ کو یقین نہیں آئے گا ان کے اس جسچر نے مجھے اتنا متاثر کیا اور میرے دل کو چھوا، اسی وقت مجھے اپنے اوپر اتنی شرمندگی ہوئی کہ میں نے تو پہلے ہی سے یہ سوچ لیا تھا کہ کیوں کہ یہ ان لوگوں میں بیٹھی ہیں جو کھانا لینے آئے ہیں میں ان کے لیے کافی خریدوں گی.

یہ ایکسپرینس میرے دل کے بہت قریب ہے اور ایک سیکھ دینے والا ایکسپرینس ہے. ہم لوگ کتنی جلدی لوگوں کو جج کر لیتے ہیں بغیر سوچے سمجھے. یہ ایکسپرینس جو میں آپ کے ساتھ شیئر کررہی ہوں یہ صرف اس لئے کہ میں اپنی کمفرڈ زون سے باہر نکلی اور وولینٹیئر کرنا ضروری سمجھا. کیونکہ دیکھیے ایز ا ومین ہم ماں ہیں، بیٹی ہیں، بہو ہیں، بیوی ہیں، بہن ہیں، یہ سب تو ہمارے رول ہیں اور انہیں بخوبی ادا کرنے کی کوشش کرتے  ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ہم لوگ نوکریاں بھی کرتے ہیں. میں خود ایک  پروفیسر ہوں لیکن مجھے لگتا ہے کہ ہمارا فرض وہیں ختم نہیں ہوتا اور بھی کچھ ہے جو ہمیں کرنا چاہیے. خواص کر خدمت خلق، جب ہم باہر نکلتے ہیں، جب ہم لوگوں کو سمجھتے ہیں، ان کی تکلیف، ان کی اسٹروگل کو سمجھتے ہیں اور پھر ان کی مدد کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس طرح بھی ہم کر سکتے ہیں تو یونو ایک عجیب و غریب سٹیکفیکشن کا احساس ہوتا ہے اور اس پر مجھے اپنے ابا کی بات یاد آتی ہے کہ بھئی بہترین پڑھائی اور بہترین کھانا، باقی سب چیزیں اتنی اہمیت نہیں رکھتی.

مجھے لگتا ہے، بہت ساری چیزیں ہیں جو بہت اہمیت رکھتی ہیں.

السلام علیکم

[Transcription in Urdu by Mohammad Shahabuddin Rahmani Qasmi]

..

Surprised and a bit embarrassed, I kept urging her to allow me to pay for both coffees. She said, “No. I accomplish two good deeds every day. Getting you coffee will be my first good deed for today.”

Fabeha Fazal
My Story In My Own Words

Translation from the Urdu by Mara Ahmed and Fabeha Fazal:

My Story In My Own Words by Fabeha Fazal

Assalamualaikum,

My name is Fabeha Fazal. I would like to share some life experiences with you that might be worth sharing. I was born in Delhi and brought up in Aligarh. My dad was a professor at Aligarh Muslim University. We were raised with the idea that life had two important goals: acquiring the highest education possible and savoring the best food. Everything else was secondary. I grew up with this mindset and completed my PhD in Aligarh. Later, my husband and I moved to the United States for further education. We settled in Chicago.

When our son, Hilal, turned four we thought that we should send him to a weekend Islamic school. I believe that was a turning point in my life. When we went to the Islamic school, I found out that everyone was a volunteer. Everyone was giving freely of their time and money to support the center. I was introduced to the concept of volunteerism and it truly impressed me. I felt compelled to contribute in some way. The question was how, as initially I did not know anyone there. In the beginning, I would stand outside the women’s section of the prayer room. Women would leave their shoes behind, as they went in to pray, and I would pick them up and arrange them neatly in cubbies. After a while, I started helping out in the bookstore, and eventually I began to teach there. I took immense pleasure in volunteering.

After several years, we moved to Rochester, New York. Since I had already tasted the satisfaction and fun associated with volunteering, I quickly joined the Islamic Center of Rochester (ICR) and took my kids there. People encouraged me to join ICR’s Board of Directors, as there were not too many women on the Board. I did just that, even though I had never served on a Board before. One of ICR’s unique characteristics is that it caters to Muslim communities from more than 55 different countries. When I joined the Board, I was introduced to a large number of congregants. My circle of friends, until then, had been limited to people from India and Pakistan. Now I had friends from Bosnia, Afghanistan, Somalia, Egypt, Bangladesh, and Nigeria. I began to socialize with them, I learned about their cultures, listened to their stories and struggles, and wonderful lifelong bonds were developed. These experiences were extremely close to my heart.

While I was still volunteering at ICR, I got an invitation from Barakah Muslim Charity to join their Board of Directors. I accepted humbly. Barakah’s mission was slightly different from ICR’s. They aim to help people in need, irrespective of religion, with free food, clothing, and whatever else the Rochester community requires.

I would like to share a story about my work at Barakah with you. Once a month, on a Sunday, we get together at Barakah and distribute non-perishable food items to the community. On this particular Sunday, I got there early in order to set everything up. People who came to pick up food were now sitting comfortably with their tickets.

Just before we were to start distribution, I told a friend I was going to get some coffee and would be right back. One of the women waiting with her ticket got up and said she wanted to join me. I agreed and made plans in my head to buy her coffee. After I got my coffee, I went up to the register to pay, but my companion insisted on taking care of it. Surprised and a bit embarrassed, I kept urging her to allow me to pay for both coffees. She said, “No. I accomplish two good deeds every day. Getting you coffee will be my first good deed for today.”

I cannot tell you how moved I was by this kind gesture. It touched me profoundly. At the same time, I felt embarrassed by my assumptions. Because my companion had been waiting in line to pick up food, I had simply made up my mind that I would be the one to buy coffee for both of us. This experience affected me greatly and I learned an important lesson. I realized how quickly we judge people, without giving it much thought.

I am able to share my experience with you because I decided to get out of my comfort zone and give some of my time to volunteering.  As women we are mothers, daughters, daughters-in-law, wives, sisters – we have all these roles, and we try to live up to our responsibilities. At the same time, we are professionals. I work as a professor. However, I believe that our duties do not end there.

There is more to life. We must serve others. When we reach out, connect with others, learn to understand their pain and hopes, and try to support them in any way we can, it gives us deep satisfaction and a sense of completion. At this point in my life, when I think of my amazing dad and his mantra for a successful life – good education and good food – I want to add one more thing to it, which is helping those in need!

Assalamualaikum.

All audio, text and images are under copyright © Neelum Films LLC


Comments (1)